Pakistan Budget 2013: The Harsh Realities
Budget Ki Baat
اور سنئے یہ جو ہم زر تلافی وغیرہ پر خرچ کرتے ہیں اور جوہمیں توانائی کے شعبے کو درست کرنے کے لئے خرچ کرنا پڑے گا، یہ دونوں مل کر کوئی ساڑھے9 فیصد بنتا ہے اور اتنا ہی ہمارا ترقیاتی بجٹ ہے۔ یعنی یہ بلائیں گلے نہ پڑی ہوں تو وفاق کا ترقیاتی بجٹ دو گنا ہو سکتا ہے۔ اس برس کا ترقیاتی بجٹ ہم نے پہلے سے زیادہ رکھا ہے، اگر یہ دو گنا ہو تو اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہماری معیشت کس طرح ترقی کرتی۔ ہم اپنی ہی کرتوتوں کے اسیر ہیں، ہم نے پاﺅں میں بیڑیاں پہن رکھی ہیں۔ ہم بری طرح پھنسے ہوئے ہیں اور حکومت نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس میں سے نکلنے کے لئے کوئی غیر مقبول فیصلے کریں، مگر لگتا ہے، ایسا ناگزیر ہے۔ اس لئے میں اس بات کی داد دیتا ہوں کہ اس حکومت نے ہمت تو کی، وگرنہ جیسا کہ میں نے عرض کیا کون حکومت چاہے گی کہ وہ ناپسندیدہ فیصلے کرے۔ ناپسندیدہ فیصلوں کا وقت بہت پہلے سے آچکا ہے۔ سوال صرف اتنا ہے کہ ایسے فیصلے صحیح سمت پر ہیں یا نہیں۔ اس کا معیشت کی بحالی پر کوئی مثبت اثر پڑے گا یا نہیں۔
وگرنہ حال ہمارا بالکل یہ ہے کہ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔ ذرا غور کیجئے، قرضے دے کر، صوبوں کا حصہ انہیں ادا کرکے اور دفاع کی ضروریات پوری کرکے وفاق اپنے بجٹ کا75فیصد حصہ خرچ کر دیتا ہے۔ باقی25فیصد سے اسے ترقیاتی کام بھی کرنا ہیں، توانائی کا بحران بھی حل کرنا ہے، مردہ اداروں کو زر تلافی دے کر انہیں زندہ رکھنا ہے اور باقی سب کچھ کرنا ہے۔ اتنے کم وسائل۔ اس پر بھی یہ حال ہے کہ خسارہ16کھرب روپے ہے جبکہ کل بجٹ36کھرب کا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس اگر خرچ کے 36کھرب روپے ہیں تو اس میں نقصان 16کھرب کا ہے۔ اگر18کھرب ہوتے تو گویا نصف خسارے میں جاتا۔ یہاں یہ بحث نہیں کہ16کھرب کہاں سے آئیں گے۔ نہیں آئیں گے تو کیا نوٹ چھاپیں گے، مزید قرضے لیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ اس بحث کو رہنے دیجئے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ جب کوئی رعایت نہیں دی گئی، بلکہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کر دیا گیا حتیٰ کہ حاجیوں، شادیوں اور ایسے ہی دوسرے کاموں پر ٹیکس لگا دیا گیا۔ مطلب یہ کہ خزانہ خالی ہے۔ بھرنے کی ساری کوششوں کے باوجود خسارہ باقی رہتا ہے۔ ایسے میں کوئی ہے جو کہے کہ نہیں، نہیں عوام کو ریلیف دینا ہوگا چاہے وہ دوسرے انداز سے اسے بھگتیں، مگر واہ واہ تو ہونا چاہئے۔ مگر میں یہ کہوں گا اب جھوٹ کی ملمع کاری چلنے کی نہیں۔ پانی سر سے گزرا جاتا ہے۔ اب قوم سے جھوٹ نہیں بولا جا سکتا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ معیشت کے اشاریے بہتر آ رہے ہیں۔ کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔
یہ الگ سوال ہے کہ جو کچھ کہا گیا ہے، وہ ٹھیک ہے یا نہیں۔ معیشت کا رخ درست سمت پر رکھا گیا یا نہیں۔ ایک دو اعلانات سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ دو چار باتیں ایسی ہیں جن سے یہ پتا چلتا ہے کہ حکومت مسئلے کو جانتی ہے۔ ایسے میں ایک سوال یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ تو کوئی بھی کر سکتا تھا، اس میں اسحاق ڈار کا کمال کیا ہے۔ کیا کمال دکھانے کی بھی کوئی گنجائش باقی ہے۔ اس کا بھی امکان موجود ہونا چاہئے۔ انگریزی والے کہتے ہیں سپیس ہونا چاہئے۔ ٹھیک ہے، مگر سوال یہ ہے کہ عوام سختیاں بھی جھیلیں اور سال کے آخر میں معلوم ہو کہ کچھ بھی نہیں ملا۔ یقینا ایسے لگتا ہے کہ کسی نے سخت بجٹ بنانے کا فیصلہ کر لیا اور اسے قوم کے مفاد میں سمجھا اور ایسا کر دکھایا۔ لوگ کسی معجزے کی توقع کر رہے تھے۔ کسی آﺅٹ آف باکس سالوشن کی۔ کیا اس کی بھی گنجائش ہم نے چھوڑی ہے۔ میں عام طور پر کہا کرتا ہوں کہ ہم نے فنڈز منیجر اور چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ کے سپرد اپنی معیشت کر رکھی ہے جو بیلنس شیٹ ہی تیار کر سکتے ہیں یا پیسہ فراہم کرنے کے جتن کر سکتے ہیں۔ یہ بات میں نے پہلی بار شوکت عزیز سے کہی جو خود ایک بینکر یا فنڈز منیجرتھے، اب ہمارا وزیر خزانہ ایک چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ ہے۔ پر سوال یہ ہے کہ اگر ہم سچ مچ کوئی اکانومسٹ ڈھونڈ لائیں تو کیا وہ کوئی معجزہ دکھا سکتا ہے۔ بے چارے محبوب الحق نے ایک بار ذرا مختلف اسلوب اپنایا تھا، اگلے سال ہی چھنی ہوگئی اور اس نے جو تصورات پیش کئے تھے، اس کے بھی حلیے بگاڑ کر رکھ دیئے گئے۔ تنخواہوں کے لئے انڈکسیشنکا فارمولا، تعلیم کے لئے اقرا ءسرچارج اور غالباً رقم کے حصول کے لئے زیادہ مختلف قسم کے بانڈز بھی جاری کئے تھے۔ میرے خیال میں ان دنوں ہمارے حالات ایسے ہیں کہ کوئی نئی بات کے بارے میں سوچنا بھی دشوار ہے۔ کوئی سپیس ہی نہیں چھوڑی کم بختوں نے۔ اسحاق ڈار نے اچھا کیا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے بجٹ پیش کر دیا، وگرنہ یہ سارے کا سارا آئی ایم ایف کے کھاتے میں ڈالا جا سکتا تھا۔ اس میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن میں بڑی جان ہے کہ اس پر یہ الزام لگایا جا سکے، ہو سکتا ہے کہ مشاورت ہو چکی ہو، یہ ہم خواہ مخواہ ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ ڈار صاحب نے ریکارڈ مدت میں بجٹ تیار کرکے گویا گنیزبک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کرا لیا ہے۔ یہ کام تو مہینوں سے ہو رہا ہے۔ جانے کس کس کی رائے اس میں شامل ہے۔
یہ سب درست ہے، مگر پھر بھی بتائیے راستہ کیا ہے۔ پیسے آپ کے پاس ہیں ہی نہیں۔ ہاں، یاد آیا ہم نے ٹیکسوں سے آمدن کا جو تخمینہ لگایا ہے اس کے بارے میں ماہرین اور غیر ماہرین دونوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ بھی دیوانے کا خواب ہے، غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ یعنی اتنے ٹیکس نہیں وصول کئے جا سکیں گے۔ تو پھر کیسے بجٹ بنائیں۔ جیب میں دھیلا نہیں، کرتی میلا میلا۔ سختیاں تو ہمیں برداشت کرنا پڑیں گی۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ اس کے پیچھے کوئی وژن ہے یا نہیں۔ یا یہ صرف بجٹ کا میلہ ہے۔ مجھے فیصلہ دینے کی اتنی جلدی نہیں۔ میں نے کون سی بجٹ تقریر کرنا ہے۔ اتنا مگر ضرور عرض ہے کہ اس سال کا بجٹ عوامی نہیں ہو سکتا تھا۔ اسے سخت ہی ہونا چاہئے۔
یہ بھی نہیں کہ عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملا، مگر عوامی ایک الگ ہی کہانی ہوا کرتی ہے۔
شور خوب اٹھے گا…. ویسے آپ بھی سنیں، ہم بھی سنتے ہیں۔
Javed Chaudhry exposes the corruption and luxurious lifestyle of Prime Minister and President
Although the Pakistan's 2013 Budget has imposed a lot of taxes on the people but that is the need of the hour. We have a choice to make here i.e. Do we want an easier life today or can we as the nation stand up and face the true realities, support our country and work towards a Roshan Pakistan. The Choice is yours to make.
ReplyDeleteGreat job chemical overhaul aircon price