Pakistan Budget 2013: The Harsh Realities
The true realities of Budget. Yes, its a very tough budget for the nation to swallow down but the truth is that our economic condition is so worse that this is the budget our country needs. Pakistan faces tougher tests ahead and we should be ready for it. There are very strong chances of us going into bankruptcy and to avoid that, the government needs to increase the revenues and dwindle down the expenses. The government could have introduced a budget that would have looked pleasing to the eye but we would have been further drenched in the debt as a country.
Budget Ki Baat
Sajjad Mir has summed up the budget in his column Aaj Ki Baat
مزہ آیا نا….میرا مطلب ہے بجٹ دیکھ کر اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ہم نے ملک کا کیا ستیاناس کر رکھا ہے۔ کوئی سیاسی جماعت نہیں چاہتی کہ وہ ا یسا بجٹ دے جسے عوامی نہ کہا جا سکے۔ اس حکومت نے ہمت کی ہے۔ میں نے بجٹ پر صرف اچٹتی نظر ڈالی ہے۔ اس پر تنقید ہی ہو رہی ہے۔ اس کے مزید خدوخال وزیر خزانہ کی پریس کانفرنس اور دوسرے فنانس بل وغیرہ سے معلوم ہوں گے۔ اتنا مگر نظر آتا ہے کہ بجٹ سخت نہیں تو نرم بھی نہیں۔ سچ پوچھئے تو اسے سخت کہا جا سکتا ہے۔ دیکھئے، گزشتہ حکومت نے آتے ہی سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں50فیصد اضافہ کر دیا تھا، سنا نہ دیکھا، کیا داد ملی تھی۔ وہ ہر سال ریوڑیاں بانٹتے رہے۔ ہر شعبے میں۔ سیاسی طور پر حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کا یہ فن آپ کو عارضی داد تو دے سکتا ہے، مگر اس سے معیشت کی بنیادیں مضبوط نہیں ہوتیں۔ آپ کے پاس توانائی کے شعبے میں کھڑا ہونے والا گردشی قرضوں کا پہاڑ عبور کرنے کے وسائل ہیں نہیں اور چلے ہیں آپ دنیا سے ٹکر لینے۔ ہمیں یہ نہیں کرنا چاہےے، وہ نہیں کرنا چاہئے، ہمیں خود انحصاری حاصل کرنا چاہئے، مگر کیسے صاحب! باتوں سے تو خود انحصاری آتی نہیں۔ اس کے لئے قربانی دینا پڑتی ہے ۔ہم نے جو قرضے اس سال ادا کرنا ہیں وہ ہمارے مجموعی بجٹ کا کوئی تیس فیصدہیں ۔ایک زمانے میں ہم بڑا واویلا کرتے تھے کہ ہمارا دفاعی بجٹ بہت زیادہ ہے۔ یہ قرضوں سے آدھا بھی نہیں، اس سے اندازہ لگائیے کہ ہم کس حد تک قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
اور سنئے یہ جو ہم زر تلافی وغیرہ پر خرچ کرتے ہیں اور جوہمیں توانائی کے شعبے کو درست کرنے کے لئے خرچ کرنا پڑے گا، یہ دونوں مل کر کوئی ساڑھے9 فیصد بنتا ہے اور اتنا ہی ہمارا ترقیاتی بجٹ ہے۔ یعنی یہ بلائیں گلے نہ پڑی ہوں تو وفاق کا ترقیاتی بجٹ دو گنا ہو سکتا ہے۔ اس برس کا ترقیاتی بجٹ ہم نے پہلے سے زیادہ رکھا ہے، اگر یہ دو گنا ہو تو اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہماری معیشت کس طرح ترقی کرتی۔ ہم اپنی ہی کرتوتوں کے اسیر ہیں، ہم نے پاﺅں میں بیڑیاں پہن رکھی ہیں۔ ہم بری طرح پھنسے ہوئے ہیں اور حکومت نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس میں سے نکلنے کے لئے کوئی غیر مقبول فیصلے کریں، مگر لگتا ہے، ایسا ناگزیر ہے۔ اس لئے میں اس بات کی داد دیتا ہوں کہ اس حکومت نے ہمت تو کی، وگرنہ جیسا کہ میں نے عرض کیا کون حکومت چاہے گی کہ وہ ناپسندیدہ فیصلے کرے۔ ناپسندیدہ فیصلوں کا وقت بہت پہلے سے آچکا ہے۔ سوال صرف اتنا ہے کہ ایسے فیصلے صحیح سمت پر ہیں یا نہیں۔ اس کا معیشت کی بحالی پر کوئی مثبت اثر پڑے گا یا نہیں۔
وگرنہ حال ہمارا بالکل یہ ہے کہ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔ ذرا غور کیجئے، قرضے دے کر، صوبوں کا حصہ انہیں ادا کرکے اور دفاع کی ضروریات پوری کرکے وفاق اپنے بجٹ کا75فیصد حصہ خرچ کر دیتا ہے۔ باقی25فیصد سے اسے ترقیاتی کام بھی کرنا ہیں، توانائی کا بحران بھی حل کرنا ہے، مردہ اداروں کو زر تلافی دے کر انہیں زندہ رکھنا ہے اور باقی سب کچھ کرنا ہے۔ اتنے کم وسائل۔ اس پر بھی یہ حال ہے کہ خسارہ16کھرب روپے ہے جبکہ کل بجٹ36کھرب کا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس اگر خرچ کے 36کھرب روپے ہیں تو اس میں نقصان 16کھرب کا ہے۔ اگر18کھرب ہوتے تو گویا نصف خسارے میں جاتا۔ یہاں یہ بحث نہیں کہ16کھرب کہاں سے آئیں گے۔ نہیں آئیں گے تو کیا نوٹ چھاپیں گے، مزید قرضے لیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ اس بحث کو رہنے دیجئے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ جب کوئی رعایت نہیں دی گئی، بلکہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کر دیا گیا حتیٰ کہ حاجیوں، شادیوں اور ایسے ہی دوسرے کاموں پر ٹیکس لگا دیا گیا۔ مطلب یہ کہ خزانہ خالی ہے۔ بھرنے کی ساری کوششوں کے باوجود خسارہ باقی رہتا ہے۔ ایسے میں کوئی ہے جو کہے کہ نہیں، نہیں عوام کو ریلیف دینا ہوگا چاہے وہ دوسرے انداز سے اسے بھگتیں، مگر واہ واہ تو ہونا چاہئے۔ مگر میں یہ کہوں گا اب جھوٹ کی ملمع کاری چلنے کی نہیں۔ پانی سر سے گزرا جاتا ہے۔ اب قوم سے جھوٹ نہیں بولا جا سکتا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ معیشت کے اشاریے بہتر آ رہے ہیں۔ کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔
یہ الگ سوال ہے کہ جو کچھ کہا گیا ہے، وہ ٹھیک ہے یا نہیں۔ معیشت کا رخ درست سمت پر رکھا گیا یا نہیں۔ ایک دو اعلانات سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ دو چار باتیں ایسی ہیں جن سے یہ پتا چلتا ہے کہ حکومت مسئلے کو جانتی ہے۔ ایسے میں ایک سوال یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ تو کوئی بھی کر سکتا تھا، اس میں اسحاق ڈار کا کمال کیا ہے۔ کیا کمال دکھانے کی بھی کوئی گنجائش باقی ہے۔ اس کا بھی امکان موجود ہونا چاہئے۔ انگریزی والے کہتے ہیں سپیس ہونا چاہئے۔ ٹھیک ہے، مگر سوال یہ ہے کہ عوام سختیاں بھی جھیلیں اور سال کے آخر میں معلوم ہو کہ کچھ بھی نہیں ملا۔ یقینا ایسے لگتا ہے کہ کسی نے سخت بجٹ بنانے کا فیصلہ کر لیا اور اسے قوم کے مفاد میں سمجھا اور ایسا کر دکھایا۔ لوگ کسی معجزے کی توقع کر رہے تھے۔ کسی آﺅٹ آف باکس سالوشن کی۔ کیا اس کی بھی گنجائش ہم نے چھوڑی ہے۔ میں عام طور پر کہا کرتا ہوں کہ ہم نے فنڈز منیجر اور چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ کے سپرد اپنی معیشت کر رکھی ہے جو بیلنس شیٹ ہی تیار کر سکتے ہیں یا پیسہ فراہم کرنے کے جتن کر سکتے ہیں۔ یہ بات میں نے پہلی بار شوکت عزیز سے کہی جو خود ایک بینکر یا فنڈز منیجرتھے، اب ہمارا وزیر خزانہ ایک چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ ہے۔ پر سوال یہ ہے کہ اگر ہم سچ مچ کوئی اکانومسٹ ڈھونڈ لائیں تو کیا وہ کوئی معجزہ دکھا سکتا ہے۔ بے چارے محبوب الحق نے ایک بار ذرا مختلف اسلوب اپنایا تھا، اگلے سال ہی چھنی ہوگئی اور اس نے جو تصورات پیش کئے تھے، اس کے بھی حلیے بگاڑ کر رکھ دیئے گئے۔ تنخواہوں کے لئے انڈکسیشنکا فارمولا، تعلیم کے لئے اقرا ءسرچارج اور غالباً رقم کے حصول کے لئے زیادہ مختلف قسم کے بانڈز بھی جاری کئے تھے۔ میرے خیال میں ان دنوں ہمارے حالات ایسے ہیں کہ کوئی نئی بات کے بارے میں سوچنا بھی دشوار ہے۔ کوئی سپیس ہی نہیں چھوڑی کم بختوں نے۔ اسحاق ڈار نے اچھا کیا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے بجٹ پیش کر دیا، وگرنہ یہ سارے کا سارا آئی ایم ایف کے کھاتے میں ڈالا جا سکتا تھا۔ اس میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن میں بڑی جان ہے کہ اس پر یہ الزام لگایا جا سکے، ہو سکتا ہے کہ مشاورت ہو چکی ہو، یہ ہم خواہ مخواہ ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ ڈار صاحب نے ریکارڈ مدت میں بجٹ تیار کرکے گویا گنیزبک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کرا لیا ہے۔ یہ کام تو مہینوں سے ہو رہا ہے۔ جانے کس کس کی رائے اس میں شامل ہے۔
یہ سب درست ہے، مگر پھر بھی بتائیے راستہ کیا ہے۔ پیسے آپ کے پاس ہیں ہی نہیں۔ ہاں، یاد آیا ہم نے ٹیکسوں سے آمدن کا جو تخمینہ لگایا ہے اس کے بارے میں ماہرین اور غیر ماہرین دونوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ بھی دیوانے کا خواب ہے، غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ یعنی اتنے ٹیکس نہیں وصول کئے جا سکیں گے۔ تو پھر کیسے بجٹ بنائیں۔ جیب میں دھیلا نہیں، کرتی میلا میلا۔ سختیاں تو ہمیں برداشت کرنا پڑیں گی۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ اس کے پیچھے کوئی وژن ہے یا نہیں۔ یا یہ صرف بجٹ کا میلہ ہے۔ مجھے فیصلہ دینے کی اتنی جلدی نہیں۔ میں نے کون سی بجٹ تقریر کرنا ہے۔ اتنا مگر ضرور عرض ہے کہ اس سال کا بجٹ عوامی نہیں ہو سکتا تھا۔ اسے سخت ہی ہونا چاہئے۔
یہ بھی نہیں کہ عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملا، مگر عوامی ایک الگ ہی کہانی ہوا کرتی ہے۔
شور خوب اٹھے گا…. ویسے آپ بھی سنیں، ہم بھی سنتے ہیں۔
اور سنئے یہ جو ہم زر تلافی وغیرہ پر خرچ کرتے ہیں اور جوہمیں توانائی کے شعبے کو درست کرنے کے لئے خرچ کرنا پڑے گا، یہ دونوں مل کر کوئی ساڑھے9 فیصد بنتا ہے اور اتنا ہی ہمارا ترقیاتی بجٹ ہے۔ یعنی یہ بلائیں گلے نہ پڑی ہوں تو وفاق کا ترقیاتی بجٹ دو گنا ہو سکتا ہے۔ اس برس کا ترقیاتی بجٹ ہم نے پہلے سے زیادہ رکھا ہے، اگر یہ دو گنا ہو تو اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہماری معیشت کس طرح ترقی کرتی۔ ہم اپنی ہی کرتوتوں کے اسیر ہیں، ہم نے پاﺅں میں بیڑیاں پہن رکھی ہیں۔ ہم بری طرح پھنسے ہوئے ہیں اور حکومت نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس میں سے نکلنے کے لئے کوئی غیر مقبول فیصلے کریں، مگر لگتا ہے، ایسا ناگزیر ہے۔ اس لئے میں اس بات کی داد دیتا ہوں کہ اس حکومت نے ہمت تو کی، وگرنہ جیسا کہ میں نے عرض کیا کون حکومت چاہے گی کہ وہ ناپسندیدہ فیصلے کرے۔ ناپسندیدہ فیصلوں کا وقت بہت پہلے سے آچکا ہے۔ سوال صرف اتنا ہے کہ ایسے فیصلے صحیح سمت پر ہیں یا نہیں۔ اس کا معیشت کی بحالی پر کوئی مثبت اثر پڑے گا یا نہیں۔
وگرنہ حال ہمارا بالکل یہ ہے کہ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔ ذرا غور کیجئے، قرضے دے کر، صوبوں کا حصہ انہیں ادا کرکے اور دفاع کی ضروریات پوری کرکے وفاق اپنے بجٹ کا75فیصد حصہ خرچ کر دیتا ہے۔ باقی25فیصد سے اسے ترقیاتی کام بھی کرنا ہیں، توانائی کا بحران بھی حل کرنا ہے، مردہ اداروں کو زر تلافی دے کر انہیں زندہ رکھنا ہے اور باقی سب کچھ کرنا ہے۔ اتنے کم وسائل۔ اس پر بھی یہ حال ہے کہ خسارہ16کھرب روپے ہے جبکہ کل بجٹ36کھرب کا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس اگر خرچ کے 36کھرب روپے ہیں تو اس میں نقصان 16کھرب کا ہے۔ اگر18کھرب ہوتے تو گویا نصف خسارے میں جاتا۔ یہاں یہ بحث نہیں کہ16کھرب کہاں سے آئیں گے۔ نہیں آئیں گے تو کیا نوٹ چھاپیں گے، مزید قرضے لیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ اس بحث کو رہنے دیجئے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ جب کوئی رعایت نہیں دی گئی، بلکہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کر دیا گیا حتیٰ کہ حاجیوں، شادیوں اور ایسے ہی دوسرے کاموں پر ٹیکس لگا دیا گیا۔ مطلب یہ کہ خزانہ خالی ہے۔ بھرنے کی ساری کوششوں کے باوجود خسارہ باقی رہتا ہے۔ ایسے میں کوئی ہے جو کہے کہ نہیں، نہیں عوام کو ریلیف دینا ہوگا چاہے وہ دوسرے انداز سے اسے بھگتیں، مگر واہ واہ تو ہونا چاہئے۔ مگر میں یہ کہوں گا اب جھوٹ کی ملمع کاری چلنے کی نہیں۔ پانی سر سے گزرا جاتا ہے۔ اب قوم سے جھوٹ نہیں بولا جا سکتا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ معیشت کے اشاریے بہتر آ رہے ہیں۔ کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔
یہ الگ سوال ہے کہ جو کچھ کہا گیا ہے، وہ ٹھیک ہے یا نہیں۔ معیشت کا رخ درست سمت پر رکھا گیا یا نہیں۔ ایک دو اعلانات سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ دو چار باتیں ایسی ہیں جن سے یہ پتا چلتا ہے کہ حکومت مسئلے کو جانتی ہے۔ ایسے میں ایک سوال یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ تو کوئی بھی کر سکتا تھا، اس میں اسحاق ڈار کا کمال کیا ہے۔ کیا کمال دکھانے کی بھی کوئی گنجائش باقی ہے۔ اس کا بھی امکان موجود ہونا چاہئے۔ انگریزی والے کہتے ہیں سپیس ہونا چاہئے۔ ٹھیک ہے، مگر سوال یہ ہے کہ عوام سختیاں بھی جھیلیں اور سال کے آخر میں معلوم ہو کہ کچھ بھی نہیں ملا۔ یقینا ایسے لگتا ہے کہ کسی نے سخت بجٹ بنانے کا فیصلہ کر لیا اور اسے قوم کے مفاد میں سمجھا اور ایسا کر دکھایا۔ لوگ کسی معجزے کی توقع کر رہے تھے۔ کسی آﺅٹ آف باکس سالوشن کی۔ کیا اس کی بھی گنجائش ہم نے چھوڑی ہے۔ میں عام طور پر کہا کرتا ہوں کہ ہم نے فنڈز منیجر اور چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ کے سپرد اپنی معیشت کر رکھی ہے جو بیلنس شیٹ ہی تیار کر سکتے ہیں یا پیسہ فراہم کرنے کے جتن کر سکتے ہیں۔ یہ بات میں نے پہلی بار شوکت عزیز سے کہی جو خود ایک بینکر یا فنڈز منیجرتھے، اب ہمارا وزیر خزانہ ایک چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ ہے۔ پر سوال یہ ہے کہ اگر ہم سچ مچ کوئی اکانومسٹ ڈھونڈ لائیں تو کیا وہ کوئی معجزہ دکھا سکتا ہے۔ بے چارے محبوب الحق نے ایک بار ذرا مختلف اسلوب اپنایا تھا، اگلے سال ہی چھنی ہوگئی اور اس نے جو تصورات پیش کئے تھے، اس کے بھی حلیے بگاڑ کر رکھ دیئے گئے۔ تنخواہوں کے لئے انڈکسیشنکا فارمولا، تعلیم کے لئے اقرا ءسرچارج اور غالباً رقم کے حصول کے لئے زیادہ مختلف قسم کے بانڈز بھی جاری کئے تھے۔ میرے خیال میں ان دنوں ہمارے حالات ایسے ہیں کہ کوئی نئی بات کے بارے میں سوچنا بھی دشوار ہے۔ کوئی سپیس ہی نہیں چھوڑی کم بختوں نے۔ اسحاق ڈار نے اچھا کیا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے بجٹ پیش کر دیا، وگرنہ یہ سارے کا سارا آئی ایم ایف کے کھاتے میں ڈالا جا سکتا تھا۔ اس میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن میں بڑی جان ہے کہ اس پر یہ الزام لگایا جا سکے، ہو سکتا ہے کہ مشاورت ہو چکی ہو، یہ ہم خواہ مخواہ ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ ڈار صاحب نے ریکارڈ مدت میں بجٹ تیار کرکے گویا گنیزبک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کرا لیا ہے۔ یہ کام تو مہینوں سے ہو رہا ہے۔ جانے کس کس کی رائے اس میں شامل ہے۔
یہ سب درست ہے، مگر پھر بھی بتائیے راستہ کیا ہے۔ پیسے آپ کے پاس ہیں ہی نہیں۔ ہاں، یاد آیا ہم نے ٹیکسوں سے آمدن کا جو تخمینہ لگایا ہے اس کے بارے میں ماہرین اور غیر ماہرین دونوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ بھی دیوانے کا خواب ہے، غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ یعنی اتنے ٹیکس نہیں وصول کئے جا سکیں گے۔ تو پھر کیسے بجٹ بنائیں۔ جیب میں دھیلا نہیں، کرتی میلا میلا۔ سختیاں تو ہمیں برداشت کرنا پڑیں گی۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ اس کے پیچھے کوئی وژن ہے یا نہیں۔ یا یہ صرف بجٹ کا میلہ ہے۔ مجھے فیصلہ دینے کی اتنی جلدی نہیں۔ میں نے کون سی بجٹ تقریر کرنا ہے۔ اتنا مگر ضرور عرض ہے کہ اس سال کا بجٹ عوامی نہیں ہو سکتا تھا۔ اسے سخت ہی ہونا چاہئے۔
یہ بھی نہیں کہ عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملا، مگر عوامی ایک الگ ہی کہانی ہوا کرتی ہے۔
شور خوب اٹھے گا…. ویسے آپ بھی سنیں، ہم بھی سنتے ہیں۔
We recommend you to read:
Javed Chaudhry exposes the corruption and luxurious lifestyle of Prime Minister and President
Although the Pakistan's 2013 Budget has imposed a lot of taxes on the people but that is the need of the hour. We have a choice to make here i.e. Do we want an easier life today or can we as the nation stand up and face the true realities, support our country and work towards a Roshan Pakistan. The Choice is yours to make.
Javed Chaudhry exposes the corruption and luxurious lifestyle of Prime Minister and President
Although the Pakistan's 2013 Budget has imposed a lot of taxes on the people but that is the need of the hour. We have a choice to make here i.e. Do we want an easier life today or can we as the nation stand up and face the true realities, support our country and work towards a Roshan Pakistan. The Choice is yours to make.
ReplyDeleteGreat job chemical overhaul aircon price